اس کے دل سے بددعا نکلی کہ اللہ کرے تیری انگلی کٹ جائے باباجی نے افسردہ لہجے میں کہا کہ یہ تو بدکار عورت ہے مگر (دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے) ہنستا ہوا گھر کی طرف واپس آرہا تھا
قدرت کا ہمیشہ قانون چلا آرہا ہے انسان جو کرتا ہے اسے اس کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ کانٹے بونے والا کبھی پھول نہیں چن سکتا۔ انسان اپنے کیے کا صلہ ضرور پاتا ہے جتنا ہوسکے مظلوم کی آہوں سے بچیں کسی کو حقیر سمجھ کر کہ یہ ہمارا کچھ نہیں کرسکے گا اتنا ظلم نہ کریں‘ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے آج آپ کے سامنے بابا عبد الحفیظ قصاب کی کہانی جو کہ انتہائی سبق آموز ہے پیش کرتا ہوں۔ باباعبدالحفیظ جو کہ چاچا یوسف کے لنگوٹیے تھے ایک ہی گلی محلے میں پیدائش اور بچپن‘ لڑکپن جوانی اور بڑھاپا اور پھر چاچا یوسف کا ساتھ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور بابا عبدالحفیظ اکیلا رہ گیا اور ہمیشہ ان کو یاد کرکے روتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بابا عبدالحفیظ کسی محفل میں تھا اور گپ شپ جاری تھی کہ اس محفل میں ایک سرجن ڈاکٹر بھی تھے کہ ناگاہ سرجری کے بارے میں بات شروع ہوگئی کہ دل کہاں‘ گردے کہاں‘ معدہ کہاں اور پھیپھڑے کہاں ہوتے ہیں کہ ایک دم بابا حفیظ جو کہ خاموش تھے کہ پرجوش انداز میں تقریباً چیختے ہوئے کہنے لگے کہ ”مجھ سے پوچھیں میں بکروں کا سرجن (ڈاکٹر) ہوں مجھ سے پوچھو۔“ چوں کہ باباعبدالحفیظ میرے لنگوٹیے دوست حفیظ الرحمن کے والد تھے اور میں نے پہلی دفعہ ان کے دائیں ہاتھ کی طرف توجہ سے دیکھا تو ان کی انگلی کی صرف ایک پور باقی تھی دو پوریں نہیں تھیں۔ بڑی حیرانگی ہوئی کہ آج تک میں نے ان کے ہاتھ پر کبھی غور کیوں نہیں کیا۔ شاید انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اور دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرے کی طرف کیے کہہ رہے تھے کہ ”مجھ سے پوچھئے میں ہوں بکروں کا ڈاکٹر“ تو میری نظر ان کے ہاتھ پر پڑی اور میں سوچنے لگا کہ شاید یہ بابا جی قصاب ہیں شاید ان کی پوریں ٹوکے یا چھرے سے کٹ گئی ہوںگی مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ بات نہ تھی بلکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ یہ حقیقت تو میں بعد میں بتاوں گا پہلے باباعبد الحفیظ صاحب کا حدود اربعہ بتاتا چلوں کہعبدالحفیظ مرحوم کا حافظہ بڑا تیز تھا اور بات ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ ہوجاتی تھی حالانکہ موصوف بالکل کوڑے ان پڑھ تھے دنیا جہاں کے شعر فارسی اور پشتو انہیں پوری پوری غزلیں ازبر تھیں اور حیرانگی کی بات یہ کہ شاعر کا نام بھی یاد تھا۔ تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے تھے انہیں اللہ تبارک تعالیٰ نے سات بیٹے دئیے تھے اور لڑکی کوئی نہیں تھی۔ مسجد کے متولی بھی تھے جب اذان کہتے تو لوگ خاموش ہوجاتے اور اذان پوری توجہ سے سنتے تھے۔ انہوں نے ریفرنڈم میں بھی بھرپور حصہ لیا ‘ پاکستان کے شیدائی تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)
اب آتے ہیں ان کی انگلی کی طرف اور یہ کہانی ان ہی کی زبانی سنیں تو شاید کسی صاحب کے دل میں اتر جائے میری بات۔
لڑکپن تھا شوخی انگ انگ میں بھری رہتی تھی شرارتیں میرا دلچسپ مشغلہ تھا۔ اس زمانے میں (راقم کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے) پشاور کے ایک بازار جہاں آج کل چترالی بازار ہے یہاں چکلہ ہوتا تھا یہ بابا جی (عبدالحفیظ) شام کے وقت صرف وقت گزاری اور تفریح کیلئے اس بازار کا ایک چکر لگایا کرتے تھے۔ ایک شام اسی طرح حسب سابق بازار کا راونڈ لگارہے تھے کہ ایک پنواری کی دکان سے ایک عورت جو کہ اس بازار سے متعلق تھی اور تقریباً آدھی عمر گنوا چکی تھی پیٹھ کیے پنواری سے پان لے رہی تھی بابا کی نظر اس عورت پر پڑی اور ایک دم اس میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا اور شیطان بابا جی پر حاوی ہوگیا ابھی اس عورت نے پنواری لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس پان لینے والی عورت کو اس زور سے چٹکی بھری کہ اس کے ہاتھ سے پان گر گیا اور اس کے دل سے بددعا نکلی کہ اللہ کرے تیری انگلی کٹ جائے باباجی نے افسردہ لہجے میں کہا کہ یہ تو بدکار عورت ہے مگر (دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے) ہنستا ہوا گھر کی طرف واپس آرہا تھا۔ایک دوسرے سے علیک سلیک کرتے ہوئے وہ اپنے گھر کے سامنے تھا۔اس کو کیا معلوم تھا کہ اس مظلوم کی آہ آسمانوں کے ساتوں دروازوں کو چیرتے ہوئے قبول ہوچکی ہے
اس نے جب کنجی (زنجیر جو کہ لٹکی رہتی ہے) کو کھٹکھٹایا تو کسی دشمن نے اس زنجیر کے ساتھ چٹکا لگایا ہوا تھا (چٹکا پہاڑی علاقوں میں ایک بڑے سائز کا سپائیڈر ہوتا ہے اس سپائیڈر کو بچھو کے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں اور وہ اس بچھو کو کھا جاتا ہے اور اس ٹین کے ڈبے پر شیشہ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ اس کو بچھو کے انجام تک پہنچنے کا نظارہ ہوسکے اس طرح جب تک وہ بچھو کو کھاتا رہے وہ بچھو ڈالتے رہتے ہیں جب ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ وہ اسپائیڈر گاڑھے محلول کی طرح ہوجاتا ہے اسی محلول کو چٹکا کہتے ہیں) اللہ ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ (آمین)
اور دروازہ کھلا اور بابا عبدالحفیظ اندر داخل ہوا‘ اس کی انگلی پر خارش ہونا شروع ہوگئی انگلی کھجاتے کھجاتے انگلی سرخ ہوگئی اور سوج بھی گئی والد صاحب نے دیکھا تو فوراً ڈاکٹر کو دکھایا انہوں نے کوئی دوائی مرہم وغیرہ دی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا بہرحال صبح تک انگلی میں زخم بھی ہوگیا۔ میں بڑا پریشان ہوا اور اس بازار کی عورت سے جو بدعا مجھے ملی اس کا اثر مجھے واضح طور پر شروع ہوتا نظر آرہا تھا۔ ہائے افسوس اب کیا کروں مگر اب پشیمانی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ڈاکٹر نے والد صاحب کو اکیلے میں جو کچھ کہا وہ مجھے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک نظر آرہا تھا۔
ڈاکٹر کے مشورہ پر فوراً عمل کیا گیا۔ ورنہ پورا ہاتھ کاٹنا پڑتا۔ایک انگلی جو کہ میں نے استعمال کی تھی صرف وہی کاٹی گئی‘ وہی الفاظ اب بھی مجھے یاد ہیں اور کیونکر نہ ہوں کہ میں نے اس مظلوم پر ظلم کرکے درحقیقت اپنے آپ پر ظلم کیا اللہ مجھے معاف فرمائے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 541
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں